Description
اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ ٭
انسان اپنی اجتماعی بلکہ نوعی ساخت میں ایک شخصیت کی طرح ہے جس کی تشکیل انھی عناصر سے ہوتی ہے جو فرد کی تعمیر میں کارفرما ہوتے ہیں۔ وہ روایت جو انسانیت کی حقیقت کا تعین کر کے اسے شعور ، ارادے اور طبیعت میں راسخ کرتی ہے، اپنے اظہار کی غیر پیغمبرانہ سطحوں پر بھی افراد ہی کو مظہر بناتی ہے۔ ان میں سے بعض افراد اپنی ذات کے ہر جز میں اس مظہریت کی ذمہ داری نبھاتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو اس روایت کے ترجمان بن کر اسے تغیر وتبدیلی پر اساس رکھنے والی انسانی صورت حال میں نہ صرف یہ کہ اوجھل نہیں ہونے دیتے بلکہ زندگی کے سب سے بنیادی اور حقیقی اصول کے طور پر اس کو نفسِ انسانی کی سطح پر قائم اور محفوظ رکھتے ہیں۔ پہلی قسم میں وہ حضرات آتے ہیں جو اپنی ذات میں بھی انسانیت کا معیار ہوتے ہیں، یعنی ائمہ و اولیا ، وغیرہ ۔ جبکہ دوسری قبیل ان لوگوں کی ہے جن کا قول ہی اتنا زندہ ، بامعنی اور پرُ اثر ہوتا ہے کہ ان کے احوال و اعمال میں موجود جزوی نقائص سرے سے غیر اہم اور ناقابلِ اِلتفات ہو کررہ جاتے ہیں۔ انسانی تکمیل کا مجموعی عمل گو کہ اپنی روح میں حال سے عبارت ہوتاہے، تاہم اس کے بعض مطالبات قال کے بغیر پورے نہیں ہو سکتے ۔ انسان کی باطنی اور خارجی پیش رفت جب اجتماعی اسلوب اختیار کرتی ہے تو اس کے بنیادی محرکات اور حتمی مقاصد کو مستحضر رہنے کے لیے لفظ کا وسیلہ درکار ہوتا ہے جو فکر و تخیل اور جذبہ و احساس کی تشکیل میں ایک فیصلہ کُن کردار رکھتا ہے۔
لفظ ، آدمی کی سب سے بڑی قوت ہے۔ شاعروں اور مفکروں کے ہاں یہ قوت اتنی بڑھی ہوئی ہوتی ہے کہ عام طور سے ان کی شخصیت، خصوصاً کردار کے اعتبار سے ، اس کا پورا مصداق بننے سے قاصر رہتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ ایک کمی ہے ، لیکن دیانت داری سے دیکھا جائے تو بعض شعرا اور مفکرین میں یہ کمی شخصیت کی کسی منافقانہ یا مریضانہ دولختی پر دلالت نہیں کرتی بلکہ انسان کی کچھ مجبوریوں کا ایک لائق فہم اور قابل قبول مظہر ہے۔
اس تمہید کا مقصد یہ تھا کہ اس طرف اشارہ کر دیا جائے کہ بعض شخصیتیں اپنی قوم کے لیے معیار بن جاتی ہیں۔ یہ معیار ذاتی کردار کی بنیاد پر بھی ہو سکتا ہے اور خیال و فکر کی وجہ سے بھی۔ قومی زندگی کی بقا اور کمال کے لیے دونوں طرح کے معیارات کا موجود اور محفوظ رہنا ضروری ہے۔
ہم اپنی صورت حال پر نظر کریں تو ہمارے موجودہ تصور زندگی اور مروجہ اقدار حیات میں قائد اعظم کی شخصیت اور علامہ اقبال کے پیغام کی حیثیت مرکزی ہے۔ ہماری قومی زندگی کی صورت گری میں کردار و گفتار کی بیشتر ضروریات انھی دو ہستیوں کو نمونہ بنا کر پوری ہوئی ہیں۔ فرد کی طرح قوم بھی ذہن ، مزاج اور ارادے کا مجموعہ ہوتی ہے جن میں یکجائی اور یکسوئی کے حصول کے لیے نظریے اور عمل کے قطبین میں توازن پیدا کر کے دکھانا پڑتا ہے۔ اگر نظریاتی ساخت کو مستحکم کرنے والا عنصر بالفرض عملی مطالبات کی تکمیل نہ کر سکتا ہو تو قومی زندگی میں اسے ایک اساسی قدر کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ اس کی اس ناگزیر حیثیت کو مجروح کرنے کی ہر کوشش اپنی بنیاد منہدم کرنے کے مترادف ہے۔
اس بات پر شبہ کرنے کے لیے دانش و بینش سے مکمل محرومی درکار ہے کہ جنوبی ایشیا کے اکثر مسلمانوں کا نظریاتی جوش اور فکری اطمینان جن نبیادوں پر استوار ہے اور استوار رہ سکتا ہے، ان میں ایک بڑی بنیاد اقبال کے خطبات اور شاعری نے مہیا کی ہے۔ کم از کم مسلمانان برصغیر نے اب تک وہ دفاعی نظام ایجاد نہیں کیا جو ان کے دین ، تہذیب اور نفسیات کو محفوظ رکھنے میں کلام اقبال سے زیادہ نہ سہی ، اُس کے برابر ہی مؤثر اور قابل اعتماد ہو۔ علامہ کی اس منفرد حیثیت کو ان کی شخصیت پر کئے گئے منفی تجزیوں کی بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا ۔ ان کا یہ مقام ان کے کلام کی وجہ سے ان کی شخصیت سے ماورا ہے۔
نظریے اور عمل کا جو توازن قوم کا مدارِہست و بُود ہے، ہم نے اسے اقبال کی فکر اور شاعری سے اخذ کیا ہے، ان کی شخصیت سے نہیں ۔ ان کا مردِ کامل ہمارے لیے مثالی نمونہ ہے مگر
ہمارے اندر اس خیال نے کبھی سر نہیں اٹھایا کہ خود اقبال اپنے ’’مردِ کامل‘‘ کا مصداق ہیں یا انھیں ہونا چاہیے ۔ علامہ سے محبت اور ان کا احترام ہمیں اس طرف نہیں لے جاتا کہ انھیں اس نظر سے دیکھنا شروع کر دیں جس نظر سے دینی اور روحانی کمالات کے حاملین کو دیکھا جاتا ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان کی ذات سے وہ گراوٹ اور گھٹیا پن منسوب کر دیا جائے جو عام سے عام آدمی کے لیے بھی باعثِ شرم ہو۔ ولی اللہ نہ ہونے کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ آدمی کو عیب جوئی کا ہدف بنالیا جائے ۔ دین داری اور اتباع سُنّت کے بعض اعلیٰ معیاروں پر پورا نہ اتر سکنے کے باوجود عین ممکن ہے کہ ایک شخص ایسے اوصاف اور ایسی صلاحیتیوں کا مالک ہو جو اربابِ صلاح اور اصحابِ تقویٰ کے لیے بھی لائق رشک ہوں۔ اس امکان کی صحت کا سب سے بڑا ثبوت خود اقبال ہیں۔ ملّت اسلامیہ کے جسد مردہ میں روح پھونکنے کا جو کام انہوں نے کیا ہے، وہ کسی بھی مجدّد اور مصلح کے لیے سرمایۂ افتخار ہو سکتا ہے اور پھر یہ کارنامہ وقت کے کسی خاص حصے تک محدود نہیں ہے۔ انسانوں کے قلوب میں یقین پیدا کرنے کے جتنے اسباب ممکن ہیں ، ان سب کو بروئے کار لا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل بعید میں بھی اُمّتِ مُسلِمَہ میں بیداری کی جولہریں اٹھیں گی ، ان میں سے اکثر اقبال کے سرچشمۂ فکر ہی سے نکلی ہوں گی ۔
اقبال کی یہ مسلمہ حیثیت ہی ان کی شخصیت کا سب سے بڑا بلکہ واحد عنوان ہے۔ اس سے واقف ہو جانے کے بعد کسی شخص کو ، بشرطیکہ وہ آدمیت سے بالکل ہی محروم نہ ہو ، یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اقبال کی چھوٹی موٹی کمزوریاں تلاش اور مزے لے لے کر بیان کرنے بیٹھ جائے۔ اس طرح کا نفسیاتی مطالعہ نا کام و نامراد لوگوں کو سمجھنے کے لیے تو مفید ہو سکتا ہے لیکن اقبال ایسی شخصیت پر اس کا اطلاق ایسے ہے، جیسے کوئی مستری ہمالہ کی ساخت کے نقائص ڈھونڈنے میں لگ جائے۔ سامنے کی بات ہے کہ نفسِ انسانی کو جمال و جلال اور خیر و کمال کے اصلی اور قدرتی سانچے میں ڈھالنے کی قوت رکھنے والی کوئی ہستی اتنی گئی گزری نہیں ہو سکتی کہ کوڑا کرکٹ چننے اور گندگی کرید نے والی مخلوق اس پر حرف زنی کر سکے۔ اقبا ل کی شخصیت میں یقینا کئی کوتاہیاں اور کمزوریاں ہوں گی۔ ان کی نوعیت ذاتی بھی ہو سکتی ہے اور علمی و فکری بھی ۔ لیکن وہ معائب و نقائص ان کے کمالات کے آگے گویا معدوم ہیں۔اُنھیں حاضر و موجود کرنے کی جو بھی کوشش کی جائے گی ، وہ بجائے خود ایک پست، گھٹیا اور مسخ نفسیات کی آئینہ دار ہو گی۔
اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہکی شہرت اس کی اشاعت سے ایک قدم آگے رہی ہے۔ کتاب کا مسودہ مجھے بھی بعد میں پہنچا اور اس پر رائے زنی اور سنی سنائی باتوں کا فشردہ پہلے وارد ہوا ۔ کتاب دیکھنے سے قبل اندیشہ یہ تھا کہ پروفیسر ایوب صابر کا یہ کام کہیں اقبال دشمنی کے رجحان کو مزید حوالہ جات فراہم کر کے اس کی تقویت کا سبب نہ بن جائے۔ لیکن جب کتاب کا مسودہ ہاتھ میں آیا اور میں نے اس کا مطالعہ کیا تو وہ اندیشہ رفع ہو گیا ۔ پروفیسر صاحب کا یہ کام بلاشبہ بہت سے فوری اوربہت سے دور رس فوائد رکھتا ہے ۔ اقبال کو جن معاندانہ اعتراضات ، الزامات اور اتہامات کا نشانہ بنایا گیا ہے ،عوام و خواص کی ایک اچھی خاصی تعداد انھیں درست یا تقریباً درست سمجھتی ہے اور اس سلسلے میں خاموش رہتی ہے ۔ اس طبقے میں اکثریت یقینا ایسے لوگوں کی ہے جو شراب نوشی وغیرہ کو علامہ کا ذاتی فعل کہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ لیکن ان کی یہ مہربانی ہمیں اقبال کا وہ حق ادا کرنے سے نہیں روک سکتی، جو ہم پر واجب ہے۔یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے محسن کی کردار کشی اور اہانت کی ہر مہم کا مقابلہ کریں تاکہ اقبال سے ہمیں جو نسبت ہے ، وہ ہر لحاظ سے بے داغ ، بے غُبار اور محکم رہے۔ یہ ہماری ذاتی ضرورت اور قومی تقاضا ہے۔
پروفیسر ایوب صابر اقبال دشمنی کی پوری روایت کو، اس کی تمام صورتوں کی پردہ کشائی، اس کی نارسائیوں کا آئینہ دکھا نے اور اس کی کج فہمی ، کج بینی اور کج نویسی کی تردید و اصلاح پر کمر بستہ ہیں۔ ان کا یہ منصوبہ کئی حصوں پر مشتمل ہے۔ زیر نظر کتاب کا موضوع ہے: ’’اقبال کی شخصیت پر کیے جانے والے اعتراضات کا تحقیقی جواب ‘‘
یہاں اعتراضات کا تار و پود جس طرح بکھیرا گیا ہے ، وہ اپنی جگہ ایک چشم کشا مطالعہ ہے۔ اعتراضات کی ایک نوع تو ایسی ہے کہ اس کی تردید کے لیے صرف اسے نقل کرنا کافی ہے۔ یہ اعتراضات داخلی تضادات سے بھرپو ر، واشگاف غلطیوں کا مرقع اور حکایت بافی کا نمونہ ہیں۔ ان کی تردید میں کچھ لکھنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ یہ کام ان کی عبارت خود ہی بخوبی انجام دے رہی ہے ۔ ان کے معاملے میں گِلِ کُوزہ سے لے کر کوزہ شکنی کے جملہ مراحل کا سامان ان کی اپنی تعمیر میں مضمر ہے۔
کچھ اعتراضات افسانہ اور حقیقت ، فکشن اور سچی واردات کا ملغوبہ ہیں۔ بافندگان حرف و حکایت نے کہانی کا تانا بانا بنتے بنتے اپنی طرف سے بھی بہت کچھ ملا کر اس کا رنگ، رخ اور ’’ذائقہ ‘‘ بدل دیا ہے۔ پھر ان اقبال شناسانِ خام کار کے خامۂ ہذیان رقم اور خود بین و خود آرانے ایسی مطلق العنانی اور بسا اوقات مطلق الانانیت دکھائی ہے کہ کہانی کہتے کہتے خود کہنے والے کو کچھ ہو گیا ہے اور وہ اپنے زور تخیل سے اقبال کا ماضی اور اپنا مستقبل آپ بنانے نکل کھڑا ہوا ہے۔
بعض اعتراضات میں تو ’’اجتماعی کاوشوں‘‘ کی عجب رنگارنگی نظر آتی ہے۔ ایک کہانی کار داستان کا ست رنگا تانا بانا بنتا ہے، دوسرا اس پر زرد وزی کام کے بیل بوٹے بناتا ہے، تیسرا کلی پُھندنے ٹانکتا ہے ۔ پھر سب مل کر غیبت بافی کا شاہکار جھول جسدِ اقبالیات پر ڈال دیتے ہیں۔
یہ ماضی وہ نہیں ہوتا جو واقعتا تھا ، بلکہ وہ جو داستان طرازوں نے اپنی خواہش اور پسند کے مطابق از سر نو گھڑکر آراستہ پیراستہ کیا ہوتا ہے ۔ اقبال اور اقبالیات کا ’’ماضی تمنائی ‘‘ ۔اس پاستان طرازی کے پس منظر میں ان اقبال شناسوں کی مجروح انا کا طائوسی رقص دیدنی ہوتا ہے کیونکہ پھر یہ اعتراضات صرف نقد ادب و شعر یا سوانحی تجزیہ نہیں رہ جاتے بلکہ ہمارے رویوں کا آئینہ بن جاتے ہیں۔ اس آئینے میں کیسے کیسے عکس ابھرتے ہیں۔ شکست خوردہ انا اپنے لیے کہاں کہاں اور کیسی کیسی پناہیں تراشتی ہے ، یہ لکھنے والے کے ذوق ، تاب ہزیمت اور طاقت فرار یا خوئے انتقام پر منحصر ہے۔
جن لوگوں کا تصور شعر اور مقیاس الشعرا، مضافاتی یا قصباتی نوعیت کا ہے، وہ اقبال کی شاعری کو اسلامی تہذیب کے جمال و زیبائی کا نمونہ جاننے کی بجائے اسے اپنے اسی دہقانی پیمانے پر ناپتے رہے ہیں۔ ان کی نارسائیوں کا عکس آپ کو کتاب میں جا بجا ملے گا ۔ ان بزرگوں کا کارنامہ بھی نظر آئے گا جو اپنے کسی عیب کا جواز اقبال کی زندگی کے مفروضہ مخفی گوشوں میں تلاش کرتے پائے جائیں گے ۔ وہ ذہن بھی منعکس ہوگا جو گھٹیا الزامات اور عیب جوئی سے لذت کشید کرتا ہے اور بڑے آدمی کی ، بزعم خویش ، تذلیل کر کے مسرت حاصل کرتا ہے۔ مسلک کا اختلاف کیوں کر عظمت کے اعتراف میں حائل ہوتا ہے، یہ منظر بھی بار بار سامنے آئے گا۔
اعتراضات کا ایک بڑا حصہ وہ ہے جس کا خمیر غلطی یا ناکافی معلومات سے اٹھا ہے۔کتاب کی سب سے بڑی افادیت اسی نوع کے اعتراضات کی تصحیح ، ترمیم اور تردید میں مضمر ہے ورنہ اہل عناد کا مرض تو درد لا دوا ہی پایا گیا ہے۔ وہ قارئین ، جن کی قِلّتِ معلومات اور عقیدت کے مابین ایک کشاکش رہتی ہے، اُنھیں اس کتاب کی صورت میں ایک مضبوط سہارا میسر آ جائے گا ۔ صرف اتنا ہی نہیں، کتنے ہی اعتراضات ایسے ہیں جن کا شافی جواب خود ہمیں بھی ڈاکٹر ایوب صابر کے توسط سے حاصل ہوا اور صُورتِ مسئلہ پوری طرح واضح ہو گئی ۔ اس خارستانِ جرح و نقد میں ہم ایسے اور بھی بہت سے قارئین ہوں گے جن کے لیے اس کتاب سے استفادہ گونا گوں فوائد رکھتا ہو گا ۔ مطالعہ شرط ہے۔
الغرض ، علامہ کی شخصیت پر اب تک جتنے اعتراضات اور الزامات عائد کیے گئے ہیں ، پروفیسر ایوب صابر نے ان سب کاسامنا کیا ہے، دیکھا پرکھا ہے اور ایک ایک کا جواب دیا ہے۔ اکثر جوابات اور توضیحات محکم ، مدلل ، مسکت اور برمحل ہیں ۔ البتہ کہیں کہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابھی مزید تشفّی درکار ہے۔ اسی طرح ایک آدھ جگہ پر کسی اختلافی نکتے کو بھی معاندانہ اعتراض فرض کر لیا گیا ہے ۔ خلیفہ عبدالحکیم کی یہ شکایت کہ اقبال، مغرب دشمنی میں حد سے گزر جاتے ہیں اور سلیم احمد کی یہ دریافت کہ ان کی شاعری کا مرکزی مسئلہ ’موت‘ ہے ، اقبال دشمنی کا مظہر نہیں ہے۔ ان پر گفتگو کی سطح اور اَسلُوب بالکل مختلف ہونا چاہیے ۔ یہ خاصے سنجیدہ مباحث ہیں۔ تاہم کچھ کھانچوں کے باوجود اقبال کی شخصیت کا ایسا ٹھوس اور متوازن دفاع اقبالیات کی روایت میں اپنی کوئی نظیر نہیں رکھتا ۔
پروفیسر ایوب صابر کے اخلاص ، جذبے اور اہلیت کو دیکھتے ہوئے ان سے یہ درخواست کرنے کو جی چاہتا ہے کہ وہ اقبال دشمنی کے اس پوشیدہ روّیے کا بھی محاکمہ کریں جو علامہ کے چند نادان دوستوں کے ہاں صاف نظر آتا ہے۔ اقبال مجدّدِ مُطلَق ہیں، اقبال تاریخ انسانی کے عظیم ترین شاعر ہیں ، اقبال دنیا کے سب سے بڑے اور آخری مفکر ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ مبالغہ آرائیاں ان تہمتوں سے زیادہ مضر اور خطر ناک ہیں جو منشی امین زبیری ایسے لوگوں نے اقبال پر لگائی ہیں ۔ یہ غیر تربیت یافتہ اور نا پختہ ذہن کو اقبال سے بدظن کر سکتی ہیں۔
یہ کتاب پڑھ کر جہاں ایک فوری فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اقبال کی شخصی بڑائی بھی بالکل واقعاتی سطح پر سامنے آ جاتی ہے، وہیں دنیائے شعر و ادب میں کارفرما بعض انسانی رویے اور ان کے محرکات و مقاصد بھی بے نقاب ہو جاتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی ذہن اس طرف بھی جاتا ہے کہ اقبال دشمنی جو کہیں نظریاتی مخاصمت ہے، کہیں فکر و اندیشہ کی تنگ دامانی اور کہیں ذاتی حسد و عناد ، اپنی اصل حقیقت میں ایک ایسا رویّہ ہے جو انسان ہونے کی بعض بنیادی شرائط کے منافی ہے۔ اس کا غیر اخلاقی پن تو ظاہر و باہر ہے، سب سے تشویشناک پہلو وہ غیر انسانی پن ہے جس سے اس کا خمیر اٹھا ہے۔ اقبال سے کلی یا جُزوی اختلاف اپنی شدید ترین حالت میں بھی ایک سنجیدہ اور مخلصانہ ذہنی سرگرمی کے طور پر قابلِ غور ہو سکتا ہے لیکن انھیں غلاظت میں ملوث اور آلودہ کرنے کی سازشیں پوری قوت سے رد کر دیے جانے کے لائق ہیں۔ پروفیسر ایوب صابر نے ان سازشوں کو بے نقاب کر کے اقبالیات کا ’’فرض کفایہ‘‘ ادا کیا ہے۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں۔
ئ…ئ…ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭ ڈاکٹرایوب صابرکی کتاب اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ کے دیباچے کے طورپرلکھاگیا۔