Follow Us:

محاضراتِ سیرتﷺ

 1,320

3 Sold in the last 3 hours
Add to Wishlist
Add to Wishlist

Description

محاضراتِ سیرت از ڈاکٹر محمود احمد غازی

زیرنظر کتاب سلسلہ محاضرات کی چوتھی کڑی ہے۔ اس سے قبل محاضراتِ قرآنی، محاضراتِ حدیث اور محاضراتِ فقہ کے ناموں سے تین جلدیں پیش کی جاچکی ہیں۔ یہ محاضرات سیرت سے نہیں علم سیرت سے بحث کرتی ہے۔ سیرت پر اُردو زبان میں ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔ سیرت کے اس کتب خانے میں درجنوں کتابیں تاریخِ سیرت میں نمایاں ترین جگہ پانے کی مستحق ہیں اور ایک سے ایک بڑھ کر ہیں۔ تاہم ہماری زبان میں تاریخِ سیرت، تدوینِ سیرت اور مناہجِ سیرت پر مواد نسبتاً کمیاب ہے۔ اُردو دان قارئین سیرت کی بنیادی معلومات اور اہم وقائع سے واقفیت حاصل کرنا چاہیں تو اس کا کافی سامان ہماری زبان میں موجود ہے۔ لیکن سیرت کا یہ علم کن کن مراحل سے گزرا، کن کن مقاصد کے پیشِ نظر سیرت نگاروں نے یہ سارا لٹریچر مرتب کیا ، اس پر اُردو زبان میں مواد کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
مزید براں بعض مغربی مصنفین نے سیرت کے ابتدائی مصادر و مآخذ کے بارے میں شبہات کا اظہار کیا ہے اور ابتدائی سیرت نگاروں کی کاوشوں کی علمی حیثیت کے بارے میں سوالات اتھائے ہیں۔ افسوس یہ کہ ہمارا مغربی تعلیم یافتہ طبقہ مغرب سے آنے والی ہر رطب دیابس تحریر کو تحقیق کا بےمثل نمونہ سمجھتا ہے۔ اس طبقے کے بارے میں علامہ اقبال نے آج سے اسی نوے سال پیشتر فرمایا تھا کہ مسلمانوں کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ نہایت پست فطرت ہے۔ فطرت کی یہ پستی آج انتہاؤں کو چھوتی محسوس ہوتی ہے۔ اب اس کے اثرات قرآن مجید، حدیثِ رسول، فقہ اسلامی اور سیرت پاک کے ذخائر پر عدم اعتماد کی صورتوں میں سامنے آنے لگے ہیں۔ ان حالات میں فنِ سیرت کی ابتدائی تدوین، تاریخِ ارتقاء اور مناہج پر گفتگو کرنے کی ضرورت اور اہمیت پہلے سے بہت بڑھ گئی ہے۔
اس کتاب کے بارہ محاضرات میں سے تقریباً نصف کا تعلق فنِ سیرت کی تاریخ اور تدوین سے ہے۔ ان محاضرات میں کوشش کی گئی ہے کہ مغربی مستشرقین اور ان کے مشرقی مسترشدین کی پیدا کردہ غلط فہمیوں اور اُلجھنوں کو دور کیا جائے۔ دو محاضرات کا موضوع ریاستِ مدینہ اور معاشرتِ مدینہ ہے۔ ریاستِ مدینہ پر گفتگو آج کے سیاق و سباق میں ناگزیر محسوس ہوتی ہے۔ آج دنیائے اسلام ایک شدید کشمکش کی کیفیت میں مبتلا نظر آتی ہے۔ مسلمانوں کا اجتماعی ضمیر اور ملی خمیر اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ اپنے مستقبل کی نقشہ کشی اپنی تہذیبی روایات کی روشنی میں کریں۔ دنیا ئے اسلام میں جابجا اسی کوشش کے مختلف النوع مظاہر دیکھنے میں آرہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ان کوششوں کی کامیابی کے لئے ایک مجتہدانہ اور ناقدانہ بصیرت کی ساتھ ساتھ اساسیاستِ اسلام سے گہری واقفیت بھی ناگزیر ہے، کیونکہ ریاستِ مدینہ اور معاشرتِ مدینہ کے مطالعہ کو جو اہمیت حاصل ہے وہ مختاجِ بیان نہیں۔
ریاستِ مدینہ اور معاشرتِ مدینہ پر گفتگو کے بعد سیرت کے دو اہم پہلوؤں، کلامیاتِ سیرت اور فقہیاتِ سیرت پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔ آج سیرت پاک کے جس پہلوؤں کو محل نظر ٹھہرایا جارہا ہے ان کا تعلق انہی دو پہلوؤں سے ہے۔ آج سیرتِ رسول ﷺ پر مشرق و مغرب میں عائد کئے جانے والے بیشتر اعتراضات کا تعلق انہی دو میدانوں سے ہے۔ آخر میں دورِ جدید میں مطالعہ سیرت کے رحجانات کا ایک عمومی جائزہ لے کر مستقبل میں مطالعہ سیرت کی ممکنہ جہتوں کے بارے میں بھی اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔
یہ محاضرات مختصر یادداشتوں کی بنیاد پر زبانی دئیے گئے تھے جسے بعد میں آڈیو ٹریک سے کتابی شکل میں منتقل کردیا گیا۔

1
    1
    Your Cart
    Pages : 792 - Size 7.5*1.5 حضرت مولانا محمد نافع صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اس بات کی خصوصی توفیق عطا فرمائی ہے کہ انھوں نے اپنی متعدد تالیفات کے ذریعے سے حضرات صحابہ کرام کے حقیقی سیرت و کردار کو مستحکم علمی اور تاریخی دلائل کے ساتھ واضح فرمایا ہے۔ جن انصاف نا آشنا حلقوں نے ان حضرات پر طرح طرح کے اعتراضات وارد کیے ہیں ان کا شافی اور اطمینان بخش جواب دیا ہے اور حضرات صحابہ کرام کے درمیان جو علمی اور سیاسی اختلافات پیش آئے، ان کے حقیقی اسباب کی دلنشیں وضاحت فرمائی۔ حضرت معاویہ ان صحابہ کرام میں سے ہیں جن کے خلاف اعتراضات و مطاعن کے ترکش سے کوئی تیر بچا کر نہیں رکھا گیا۔ زیر تبصرہ کتاب ’سیرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ‘ میں حضرت مولانا محمد نافع صاحب نے ان کی سیرت کے حقیقی روشن پہلوؤں کو مضبوط دلائل کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ پہلی جلد کے پہلے حصے میں حضرت معاویہ کے سوانح، عہد رسالت میں ان کے منصب و مقام اور کارنامے اور ان کے مناقب کی احادیث کو پوری تحقیق کے ساتھ بیان کیا ہے۔ دوسرے حصے میں حضرات خلفائے ثلاثہ کے عہد مبارک میں حضرت معاویہ کی خدمات اور دیگر کارناموں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تیسرے حصے میں حضرت عثمان کی شہادت کے بعد کے واقعات زیر بحث لائے گئےہیں۔ چوتھے اور آخری حصے میں فاضل مؤلف نے حضرت معاویہ کے عہد خلافت کے کارناموں، فتوحات، ان کے قائم کیے ہوئے انتظامی ڈھانچے، ان کی رفاہی اور ترقیاتی خدمات، ان کی علمی کاوشوں، ان کے مکارم اخلاق اور اہل بیت کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا ذکر ہے۔ آخر میں حضور اقدسﷺ کے ساتھ ان کے عشق و محبت کے مظاہر اور ان کے بارے میں اکابر امت کی آرا نہایت تفصیل اور استقصا کے ساتھ پیش کی ہیں۔ Remove
    Seerat ameer e Muavia
    1 X  1,800 =  1,800
    Scan the code