Follow Us:

Ahkam e Sharia Me Halat Wa Zamana Ki Riaiyt

 2,150

7 Sold in the last 5 hours

Imported Paper 2 Color Printing – Pages – 404 – Large Size Book

Add to Wishlist
Add to Wishlist

Description

اسلام ادیانِ سماویہ میں آخری دین ہے جس نے قیامت تک نسلِ انسانی کی راہنمائی کرنی ہے اور اس کے احکام و قوانین رہتی دنیا تک انسانی معاشرہ کے لیے فطری قوانین و نظام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی و نبوت کا دروازہ بند ہوگیا تھا جس کی وجہ سے اس دوران نئی آسمانی تعلیمات کا کوئی امکان نہیں رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرہ میں فکری و ذہنی ارتقاء، تہذیبی تغیرات اور نت نئے انکشافات و تجربات کے باعث معاشرت و اجتماعیت کا کسی ایک مقام و کیفیت پر ٹھہراؤ بھی ممکن نہیں ہے۔ اور ہر تغیر و ارتقاء کے ساتھ قوانین و ضوابط کی تبدیلی اور نئے ضوابط و احکام کی ضرورت مسلسل قائم ہے جو قیامت تک اسی طرح موجود رہے گی۔ جبکہ حالات کے تغیر کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود احکام کی تطبیق اور نئے قوانین کی تشکیل معاشرتی ارتقاء کے فطری اور لازمی تقاضے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسلام میں احکام و قوانین کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے جو انسانی معاشرت کے لیے اساس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے دائرے سے ہٹ کر کسی صالح معاشرے کی تشکیل اسلامی نقطۂ نظر سے ممکن ہی نہیں ہے، اور قرآن و سنت کے صریح نصوص و احکام میں کسی تبدیلی کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ چنانچہ وحی و نبوت کے انقطاع کے بعد سے قیامت تک کے دور میں ضرورت کے مطابق احکام و قوانین کی تعبیر و تشریح، تطبیق اور نئے قوانین و ضوابط کی ترتیب و تدوین کے لیے اسلام نے ’’اجتہاد‘‘ کا اصول پیش کیا ہے جس کے ذریعہ انسانی علم و عقل کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ قرآن و سنت کے اصول و نصوص کے دائرے میں ان سے راہنمائی لیتے ہوئے یہ فریضہ سر انجام دے۔ چنانچہ انسانی علم و عقل نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد تسلسل کے ساتھ ہر دور میں یہ خدمت سر انجام دی ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح قیامت تک جاری رہے گا۔ اسلامی شریعت کا یہ امتیاز و اختصاص ہے کہ اس میں جمود و تعطل نہیں ہے بلکہ وہ علمی و فکری حرکت کی ہمیشہ نمائندہ رہی ہے۔ اور مسلم مجتہدین و فقہاء کی اس حوالہ سے بے پناہ خدمات و مساعی نہ صرف اسلامی تاریخ بلکہ نسل انسانی کی علمی و فکری تاریخ میں بھی بجا طور پر قابل فخر سمجھی جاتی ہیں۔ سماج اور قانون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں ’’ڈیڈ لاک‘‘ نہیں ہوتا، سماج کو کسی جگہ ٹھہراؤ نہیں ہوتا اور قانون سماج کی اس حرکت پذیری کے کسی مرحلہ میں اس کی راہنمائی سے معذرت نہیں کرتا بلکہ ہر مسئلہ کا حل بتاتا ہے اور ہر ضرورت کی تکمیل کے لیے ہمیشہ مستعد رہتا ہے۔ اس سماجی اصول کا صحیح ترین مصداق اسلامی شریعت اور اس کا اصول اجتہاد ہے جو قرآن و سنت کے بنیادی اصولوں اور نصوص صریحہ کا دائرہ پوری طرح قائم رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ پیش آمدہ مسائل اور ضروریات میں بھی آنکھیں بند کر لینے کی بجائے استدلال و استنباط اور تعبیر و تشریح کے تنوع اور ندرت کے ذریعہ انسانی معاشرت کے سفر کے جاری رہنے میں مددگار ہوتا ہے۔ اسلامی شریعت پر جمود کا بے جا الزام اسلام کے اصول اجتہاد اور اس کی مسلسل کارفرمائی سے بے خبری کی علامت ہے جو تاریخی تسلسل کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق کے بھی منافی ہے۔ برصغیر کے نامور مفکر و دانشور حضرت مولانا محمد تقی امینیؒ نے اسلام کے اسی دائرۂ اجتہاد کے تعارف کے لیے ایک معرکۃ الآراء کتاب ’’احکام شریعت میں حالات و زمانہ کی رعایت‘‘ کے عنوان سے تصنیف فرمائی تھی جس میں ایک طرف انہوں نے شریعتِ اسلامیہ پر علمی و فکری جمود کی بے جا تہمت دھرنے والوں کی بے خبری کی خبر لی ہے، دوسری طرف اسلامی شریعت کے احکام و قوانین کو جمود کے دائروں میں جکڑ دینے کی بے جا کوششوں کو بھی اسلام کے مزاج اور دینی تقاضوں کے منافی قرار دیا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ مجتہدین و فقہاء کی علمی کاوشوں کو ایک حسین گلدستہ کی صورت میں پیش کیا ہے۔ اس عظیم القدر علمی کاوش سے ہزاروں علماء اور دانشوروں نے استفادہ کیا ہے اور راہنمائی حاصل کی ہے۔ جبکہ مذکورہ بالا دونوں حوالوں سے یہ کتاب آج کی علمی دنیا میں ایک کلاسیکل اور اساسی حوالہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ اس کتاب کی ازسرِنو اشاعت کی کوئی صورت نکالی جائے اور اس کے حوالوں کی تخریج کے ساتھ ساتھ ضروری مقامات پر توضیح و تشریح کو بھی اس کا حصہ بنایا جائے۔ مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی ہے کہ ہمارے فاضل دوست نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے یہ خدمت سرانجام دی ہے اور ہمارے قدیم ترین دینی ادارے جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور نے اس کی طباعت و اشاعت کا اہتمام کیا ہے۔ یہ کتاب علمی، فقہی اور فکری ماحول میں کام کرنے والے اصحابِ فکر و دانش کے لیے بلاشبہ ایک گراں قدر تحفہ ہے اور اس کی دوبارہ اشاعت پر جامعہ فتحیہ لاہور ہم سب کے شکریہ کا مستحق ہے۔
2
    2
    Your Cart
    نام کتاب - وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والے مصنف ڈاکٹر حافظ محمد سعداللہ صاحب حضورِاقدسﷺ کی سیرت طیبہ پر صدیوں سے لکھاجا رہا ہے اور انشاءاللہ قیامت تک سلسلہ جاری رہے گا-آپﷺکی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک ادا نہ صرف ریکارڈ پر ہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپﷺ کی تعلیمات،آپﷺکی سیرت اور آپﷺ کے اخلاق و کردار کے نت نئے پہلو سامنے آتے جا رہے ہیں یہ کتاب بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے اس کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے باب اول میں آپﷺ کی طبعی شفقت و رحمت اور غمخوارئ امت اور باب دوم ایمان و ھدایتِ امت کا غم اور باب باب سوم احکامِ شریعت میں آسمانی کا غم اور باب چہارم انسانیت کا دنیوی درد و غم اور باب پنجم امت کا برزخی و اخروی غم جیسے عنوانات پر مشتمل ہے  یہ کتاب 384 صفحات پر مشتمل ہے Remove
    Wo Apny Paray Ka Gham Khany Waly
    1 X  800 =  800
    جنابِ رسالت مآب ﷺ کی حیاتِ مبارکہ پر صدیوں سے لکھا جارہا ہے اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آپؐ کی پاک زندگی پر ہر پہلو سے لکھا گیا ہے اور مسلمانوں کے علاوہ بہت سے غیر مسلموں نے بھی آپؐ کی سیرتِ طیبہ کو موضوع بنایا ہے۔ اس سلسلے کا پہلا کام محمد بن اسحاق بن یسار مدنی (ابنِ اسحاق) نے کیا تھا جو ’سیرۃ رسول اللہ ﷺ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ کتاب دوسری صدی ہجری یا آٹھویں صدی عیسوی میں منظر عام پر آئی۔ یوں سیرت نگاری کا سلسلہ گزشتہ 13 صدیوں سے جاری ہے۔ آنحضرتﷺ کی سیرتِ مبارکہ پر لکھی جانے والی کتابوں کا مقصد مسلمانوں کو آپؐ کی حیاتِ مقدس کے مختلف مراحل سے روشناس کرنا ہی نہیں بلکہ ان کے سامنے وہ کامل نمونہ پیش کرنا بھی ہے جسے پیش نظر رکھ کر وہ اپنی زندگیوں کو سنوارتے ہوئے اس صراطِ مستقیم پر چلیں جس کی طرف آپؐ نے رہنمائی فرمائی۔ ’معارفِ سیرت‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ ان 31 مضامین کا مجموعہ ہے جو ماہ نامہ ’معارف‘ اعظم گڑھ میں شائع ہوئے۔ اس کتاب کے مرتب میاں محمد سعد خالد ہیں جنھوں نے بہت محنت اور عرق ریزی سے اس تالیف کو ترتیب دیا ہے۔ اس کتاب میں شامل مضامین نومبر 1919ء سے لے کر اپریل 2013ء تک کے ہیں۔ اس مجموعے میں سید سلیمان ندوی، مولانا حمیدالدین فراہی، ڈاکٹر حمیداللہ، سید ابوالحسن علی ندوی اور قاضی اطہر مبارک پوری جیسی اہم شخصیات کے مضامین شامل ہیں۔ اس کتاب میں شامل مضامین کو حضورِ اکرمﷺ کی پاک حیات کی زمانی ترتیب کو سامنے رکھ کر مرتب کیا گیا ہے۔ محمد سعد خالد نے ان اہم مضامین کو یکجا کر کے یقینا ایک باسعادت کام کیا ہے جس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔  صفحات584 اعلیٰ کوالٹی آف پیپر Remove
    Marif e Seerat
    2 X  1,360 =  2,720
    Scan the code